وفات مسیح علیہ السلام
آج بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہی دنیا میں نازل ہوں گے۔ ان کے علاوہ جو دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہو گا۔
-1
یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب دے کر مار دیا اور انہیں بائبل کے مطابق لعنتی ثابت کر دیا کیونکہ لکھا ہے ’’جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں 3/13) قرآن کریم ان کی تردید فرماتا ہے۔
-2
عیسائی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب تو دی تھی مگر وہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے تین دن دوزخ میں رہے۔ پھر واپس دنیا میں آئے اور جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے۔ اب وہ قیامت سے قبل دوبارہ واپس آئیں گے اور ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے۔ اب وہی نجات یافتہ ہو گا جو ان کے کفارے پر ایمان لائے یعنی اس عقیدے پر کہ دوزخ میں جا کر انہوں نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ قرآن کریم اس کی بھی تردید فرماتا ہے۔
-3
غیر ازجماعت عام مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود صلیب دینے کے لئے لے جارہے تھے تو انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے رات کے اندھیرے میں روشن دان کے ذریعے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک یہودی دشمن کی شکل تبدیل کر کے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل بنا دی جسے کمرے میں بند کر دیا۔ صبح یہودیوں نے اس شخص کو جس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی تھی ،کو صلیب پر لٹکا دیا مگر دراصل وہ انہی کا ایک یہودی بھائی تھا جس کو صلیب دی گئی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر بیٹھے ہیں ۔ اس کہانی کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ احادیث میں یہ ایک من گھڑت کہانی ہے جونہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ خدا کی شان کے بھی خلاف ہے۔ مثلاً
-1
اس یہودی نے شور کیوں نہ ڈالا کہ میں تو یہودی تمہارا بھائی ہوں میرا یہ نام ہے میرا فلاں جگہ گھر اور بیوی بچے ہیں۔ کوئی دنیا کا عقل مند انسان اسے قبول نہیں کر سکتا کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا گیا اورصلیب پر لٹک کر نہایت دردناک طریق پر مارا گیا اور اُف تک نہ کی۔ اگروہ شور ڈال دیتا تو یہودی کبھی بھی اسے صلیب پر نہ لٹکاتے بلکہ اصلی مسیح کی تلاش میں نکل پڑتے۔ اور اسے مسیح کا جادو سمجھ لیتے۔
-2
اگر خداتعالیٰ نے اٹھانا ہی تھا تو رات کی تاریکی میں کیوں اٹھایا دن کے اجالے میں کیوںنہ اٹھایا تاکہ سب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی۔
-3
کیا ہم اس بات کو گوارا کر سکتے ہیں کہ ہماری شکل فرعون یا ابوجہل یا یزید کے چہرے پر لگ جائے اور وہ ہمارا ہم شکل ہو جاتا اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ نے کیوں اپنے مقدس نبی کی شبیہہ یہود پر ڈال دی؟
-4
عیسائی اسی واقعہ کو جواز بنا کر ثابت کرتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت عیسیٰ ؑ کی شان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھی کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی گئی جبکہ آنحضورﷺ نے طائف میں پتھر بھی کھائے اور احد میں آپؐ کے دانت تک شہید ہوئے۔
؎غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا
-5
اگر یہ قصہ مان لیں تو گویا قیامت تک کے لئے نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو گمراہ کر دیا کیونکہ وہ قیامت کے دن کہہ دیں گے کہ اے خدا تو نے بائبل میں تعلیم نازل کی تھی کہ جسے صلیب دی جائے وہ لعنتی ہوتا ہے ہم اسے جھوٹا سمجھتے تھے اور تیری تعلیم کے مطابق اسے صلیب دے کر لعنتی ثابت کر دیا پھر ہم کیوں اس پر ایمان لاتے؟
حیات مسیح کا عقیدہ عیسائیوں اور یہودیوں سے آیا ہے
-سرسید احمد خان صاحب فرماتے ہیں
’’ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاری کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کرلیا تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن جلد2صفحہ43)
مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں:
’’یہ جو حیات مسیح لوگوں میں مشہور ہے وہ ایک یہودی کہانی اورصابی من گھڑت افسانہ ہے مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بن ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے۔قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عیسیٰ ؑ نہیں مرا۔‘‘ (الہام الرحمن فی تفسیرالقرآن اردو جلد اول صفحہ240)
جماعت احمدیہ کا نظریہ
ہمارے نزدیک اگر چہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے صلیب پر لٹکایا ضرور تھا مگر وہ بے ہوشی کی حالت میں زندہ صلیب سے اتار لئے گئے تھے۔ اس کے بعد وہ لمبا سفر کر کے افغانستان کے راستے ہندوستان اور کشمیر میں پہنچے اور وہاں120سال کی عمر میں وفات پائی۔ آج بھی ان کا مزار کشمیر کے محلہ خانیار میں یوز آسف کے نام سے مشہور ہے۔ چند دلائل درج ذیل ہیں :
-1
جمعہ کے روز سہ پہر انہیں صلیب پر لٹکایا گیا۔ تقریباًدو اڑھائی گھنٹے بعد اُنہیں اتار لیا گیا۔ اس دوران انسان صلیب پر جان نہیں دیتا بلکہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے کیونکہ صلیب میں دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی ہڈیوں کے درمیان میخیں گاڑی جاتی ہیں۔ اس سے اتنا خون نہیں نکلتا کہ انسان مر جائے۔
-2
اتارنے سے قبل جب وہ بے ہوش ہو چکے تھے ایک رومن سپاہی نے ان کی پسلی میں بھالا ماراجس سے خون اور پانی فی الفور بہہ نکلا (یوحنا 19/34)۔ یہ بات قطعیت سے ثابت کرتی ہے کہ وہ اس وقت زندہ تھے اور دل کی دھڑکن جاری تھی اور خون رگوں میں گردش کر رہا تھا۔ورنہ مردہ جسم سے خون تیزی سے نہیں نکلتا کیونکہ دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور خون جم جاتا ہے۔
-3
صلیب سے اتارنے کے بعد ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تب صلیب کا عمل مکمل ہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو چوروں کو بھی صلیب دی گئی۔ ان دونوں چوروں کی تو ہڈیاں توڑی گئیں مگر حضرت عیسیٰ ؑ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔
-4
صلیب سے اتارنے کے فوراً بعد انہیں حواری لے گئے اور ایک خفیہ تہہ خانے میں جا کر رکھا۔ ان کے جسم پر مرہم لگائی گئی جو اس وقت سے آج تک طب کی کتابوں میں ’’ مرہم عیسیٰ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جو زخموں کو بہت جلد ٹھیک کرتی ہے۔ جسم پر ایک چادر لپیٹ دی گئی۔ تین دن تک عیسیٰ ؑ اسی تہہ خانے میں رہے۔ اس کے بعد وہ نکلے اور رات کے وقت ایک حواری کے گھر جا کر سب حواریوں سے ملے۔ اورپھر ایک لمبے سفر کا آغاز کر دیا ۔
-5
جو چادر ان پر لپیٹی گئی جسے کفن مسیح کہا جاتا ہے وہ آج بھی اٹلی کے ایک گرجا گھر میں موجود ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی تصویر (image) بنی ہوئی ہے۔ کیمرے کی ایجاد کے بعد جب اس کی تصویر لی گئی تو وہ ڈارک روم میں negative کی بجائے positive بن کر ابھری اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے پر ان کی تصویر کا negative بنا ہوا ہے جو اس بات کو قطعیت سے ثابت کرتا ہے کہ یہ تصویر جعلی نہیں اصلی ہے۔ اس تصویر میں بہت سے زخموں کے نشانات ہیں جن سے خون نیچے کی طرف رستا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کپڑے میں لپیٹے جانے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے اور ان کے زخموں سے خون رِس رہا تھا۔
-6
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے افغانستان ، ہندوستان اور کشمیر کی طرف سفر اس لئے اختیار کیا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے 12 قبائل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف2 قبائل فلسطین میں آباد تھے باقی 10 قبائل 300 سال قبل ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ کر آباد ہوگئے تھے۔ چنانچہ مورخ اس بات پر قریباً متفق ہیں کہ ان علاقوں میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل آ کر آباد ہوئے تھے۔ اسی لئے آج بھی یہاں کے قبیلوں کے نام موسیٰ خیل عیسیٰ خیل وغیرہ ملتے ہیں۔آپ کی ہجرت اور کشمیر میں آنے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ فرمایا
(المومنون:51) اور کشمیر کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ اس وقت کا راجہ شالباھن سے حضرت عیسیٰ کی ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے جس میں عیسیٰ ؑنے بتایا میں بنی اسرائیل کا نبی ہوں اور کنواری کے بطن سے پیدا ہوا اور میری تعلیم محبت کی ہے ۔ میں اپنی قوم کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔
-7
سری نگر کے محلہ خانیار میں آپؑ کا مزار یوز آسف کے نام سے مشہور ہے۔ ’’ یوز ‘‘ یسوع سے بگڑا ہوا لفظ ہے اور آصف کے معنی ہیں متلاشی یعنی آپ اپنی قوم کی تلاش میں یہاں پہنچے۔ قبر کے پاس پتھر کی تختی ہے جس پر دو قدموں کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سوراخ یعنی زخموں کے نشان دکھائے گئے ہیں ۔ یہ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اس قبر میں مدفون ہونے والے کے قدموں میں کیل لگائے گئے تھے جو صلیبی واقعہ پر دلالت کرتا ہے۔
وفات مسیح از روئے قرآن
-:1دلیل نمبر
(آل عمران :56)
ترجمہ:جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ! یقینا میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والاہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں ۔پھرمیری ہی طرف تمہارا لوٹ کرآنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے ۔
قرآن کریم اور احادیث میں کہیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر نہیں ہے۔کہیں بھی ’’آسمان‘‘ کا لفظ نہیں ہے بلکہ واضح طور پر ان کی وفات کا جا بجا ذکر پایا جاتا ہے۔ مثلاً فرمایا
(آل عمران :56)
اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور تیرا رفع اپنی طرف کروں گا یعنی تیرے درجات بلند کروں گا۔
لفظ تَوَفِّیْ کے معنی
لفظ تَوَفِّیْ عربی زبان کا ہے۔ اس کے معنی ہی وفات کے ہیں۔ اسی لئے اردو میں بھی فوت شدہ کو اَلْمُتَوَفّٰی کہتے ہیں۔
-1
قرآن کریم میں 25 مرتبہ لفظ تَوَفِّی استعمال ہوا ہے جب خدا بندے کی تَوَفِّیْ کر رہاہے۔ جن میں دو جگہ عیسیٰ ؑکا ذکر ہے باقی 23 جگہ تمام مفسرین اس کے معنی قبض روح یعنی موت کے لیتے ہیں مگر عیسی ؑ کے وقت زندہ آسمان پر اٹھانا ترجمہ کیا جاتا ہے جو ہرگز درست نہیں۔
-2
اسی آیت کے معنی بخاری شریف میں حضرت ابن عباس نے ’’ مُمِیْتُکَ‘‘ کے کئے ہیں۔ یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدۃ)
-3
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج دیا ہے کہ’’اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ ﷺ سے یا اشعار وقصائدو نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدائے تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبضِ روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے۔ یعنی قبضِ جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرارِ صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار (1000)روپیہ نقد دوں گا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 603)۔ آج تک کوئی یہ چیلنج قبول نہ کر سکا۔
لفظ رفع کے معنی
جب خدا بندے کا رفع کرے تو اس کے معنی ہیں درجات میں بلند کرنا۔ روحانی بلندی مراد ہے نہ کہ جسمانی۔ اسی لئے ہمیں دو سجدوں کے درمیان ’’وَارْفَعْنِیْ‘‘ کی دعا سکھائی گئی ہے ۔ کیا اس سے یہ مراد ہے کہ اے خدا مجھے دوسرا سجدہ کرنے سے پہلے ہی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لے۔
قرآن کریم میں بلعم باعور کے بارہ میں آتا ہے کہ خدا اس کا رفع کرنا چاہتا تھا مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا۔
(الاعراف:177) یعنی خدا اس کے درجات بلند کر کے اپنے قرب میں جگہ دینا چاہتا تھا مگر وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ جو تواضع اختیار کرے تو خدا ساتویں آسمان پر زنجیر کے ساتھ اس کارفع کرتا ہے۔ (کنزالعمال کتاب التواضع)نیز حضرت عیسیٰ ؑکے لئے کہیں نہیں فرمایا کہ جسم کے ساتھ آسمان پر رفع ہوا ہے بلکہ فرمایا (النساء :159) اللہ نے اپنی طرف رفع کیا اور اللہ ہر جگہ موجود ہے۔
-:1دلیل نمبر
(المائدۃ:118) ترجمہ :میں نے تو انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میر ابھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ۔اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں رہا ۔پس جب تو نے مجھے وفات دے دی ،فقط ایک تو ہی ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔
سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان قیامت کے روز ہونے والے ایک مکالمہ کا ذکر ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو تو عیسی ؑعلیہ السلام عرض کریں گے کہ ہرگز نہیں میں نے تو انہیں ایک خدا کی عبادت کی تعلیم دی تھی اور جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان کا نگران تھا ۔ یعنی پھر مجھے کچھ علم نہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تک حضرت عیسیٰ ؑ پرصرف دو زمانے آئیں گے۔ایک قوم میں موجودگی کا زمانہ جس میں قوم توحید پر قائم رہی دوسرا قوم سے غیرحاضری کا زمانہ جو یوم حشر تک چلے گا اس دوران عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو معبود بنا لیا۔پس فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کا جوچاہیں ترجمہ کرلیں اس آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑقیامت کے دن تک دنیا میں نہیں آسکتے۔
حدیث سے وضاحت
آنحضورﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن میرے کچھ صحابہ کو دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گایہ تو میرے صحابہ ہیں؟ تو مجھے کہا جائے گا کہ تجھے علم نہیں کہ تیرے بعد یہ مرتد ہوگئے تھے تو میں حضر ت عیسیٰ ؑکی طرح یہی کہوں گا کہ جب تک میں ان میں موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ہی ان کا نگران تھا۔(بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ زیر آیت ھذا)جو ترجمہ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کا آنحضور ﷺ کیلئے کیا جائے گا وہی ترجمہ حضرت عیسیٰ ؑ کیلئے کیا جائے گا۔
آنحضورؐ کا معراج
یہ کہنا کہ معراج جسمانی تھا درست نہیں کیونکہ جو کچھ آنحضور ﷺ نے وہاں دیکھا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کی تعبیر کی اور تعبیر رئویا و کشوف کی کی جاتی ہے مثلاً بڑھیا کو دیکھا اور اس کی تعبیر دنیا کی عمر سے کی۔اسی طرح روایت میں آتاہے ثُمَّ اسْتَیْقَظَ پھر آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔(بخاری کتاب التوحید باب کلیم اللّٰہ موسیٰ تکلیماً ) یاد رہے کہ معراج کی کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ وہاں جسم کے ساتھ موجود تھے۔حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ معراج کے موقع پر آنحضور ﷺ کی حضرت عیسیٰ ؑکی بھی روح سے ملاقات ہوئی تھی۔(کشف المحجوب صفحہ451)
نزول مسیح کی وضاحت
احادیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کا ذکر ہے۔نزول کے ایک معنی پیدا ہونے کے بھی ہیں مثلاً قرآن مجیدفرماتاہے:
-1
وَاَنْزَلْنَاالْحَدِیْدَ(الحدید:26) ہم نے لوہا نازل کیا۔
-2
۔ وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ الْاَنْعَامِ(الزمر:7) اس نے تمہارے لیے چوپائے نازل کیے۔
-3
قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْراً رَسُوْلاً (الطلاق:11) اللہ نے آنحضور ﷺ کو نازل کیا۔
چونکہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اس لیے اُن کے آنے سے مراد ان کے کسی مثیل کاپیدا ہونا ہے۔یہ محاورہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے جب کسی فوت شدہ کا نام کسی کو دیا جائے تو مراد یہ ہوتاہے کہ ان دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ جیسے کسی بہادر کو رستم اور سخی کو حاتم طائی کہہ دیتے ہیں۔بلکہ کسی بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں حالانکہ اس کی جنس ہی مختلف ہوتی ہے۔ اسی لیے بزرگوں کے ناموں پرماں باپ اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں تاکہ وہ اُن جیسے نیک بنیں۔امت محمدی اور امت موسویہ کے درمیان زبردست مشابہت پائی جاتی ہے ۔قرآن کریم آنحضور ﷺ کو حضرت موسیٰ ؑ کے مشابہہ قرار دے رہاہے ۔(المزمل : 16) آیت استخلاف میں خلافت محمدیہ کی بنی اسرائیل کی خلافت سے تشبیہ دی گئی ہے ۔امت کے آخری حصہ کو آنحضور ﷺ نے گمراہ ہونے والے بنی اسرائیل سے مشابہہ قرار دیا ہے ۔پس آخری زمانے میں آنے والا مسیح بھی پہلے مسیح کے مشابہہ ہوگا ۔
حضرت عیسیٰ اور مسیح موعودؑ کے درمیان مشابہتیں
-1
گزشتہ انبیاء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی وہ واحد نبی ہیں جن کا انکار اس لیے کیا گیا کہ یہود یہ نظریہ رکھتے تھے کہ بنی اسرائیل کے نبی ایلیا (حضرت الیاس ؑ) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں ۔ وہ آسمان سے نازل ہونگے تو مسیح آئیں گے ۔ (2سلاطین:2/11) جب حضرت مسیح علیہ السلام نے دعویٰ فرمایا تو یہودیوں نے یہی اعتراض کیا کہ اگر تو سچا ہے تو بتا وہ ایلیا کہاں ہے تب حضرت عیسیٰ ؑ نے ان کو بھی سمجھایا کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ کوئی زندہ آسمان پربیٹھا ہے اور واپس آئے گا ۔بلکہ ایلیا کے آنے سے مراد انکے کسی مثیل کا پیدا ہونا ہے چنانچہ انہوں نے حضرت یحییٰ ؑ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ایلیا جو آنے والا تھا وہ یہی ہے ۔ (متی:11/14) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ فرمایا تو علمائے وقت نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عیسیٰ علیہ السلام تو زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں ۔
-2
حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 14سو سال بعد آئے اسی طرح آنحضور ﷺ کے ٹھیک 14سو سال بعد مسیح موعود علیہ السلام نے آنا تھا۔
-3
حضرت مسیح اور ان کے حواریوں پر یہود نے سخت مظالم کیے ان کے بائیکاٹ کیے ان کی تبلیغ پر پابندی لگائی گئی انہیں قتل کیا گیا مارا پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ زیر زمین غاروں (کہف) میں چلے جاتے۔ اسی طرح مسیح موعودؑ اور ان کی جماعت کے ساتھ سلوک ہو گا۔
-4
حضرت عیسیٰ ؑ کو تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ تبلیغ کے ساتھ پیغام پھیلانے کی تعلیم دی گئی اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وقت بھی تلوار کی نہیں بلکہ دعوت الی اللہ کے ذریعہ پیغام کی اجازت ہوگی ۔
-5
حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ کے حواریوں کو یکدم غلبہ حاصل نہیں ہواتھا بلکہ 300سال کے بعد ظاہری غلبہ حاصل ہوا۔ اسی طرح مسیح موعود ؑ کی جماعت کو ظاہری غلبہ بھی یکدم نہیں بلکہ تدریجاً ہوگا ۔(حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین میں ایسی 16 مشابہتیں بیان فرمائی ہیں )
عیسیٰ بن مریم اور مسیح موعود ؑ کے حلیے
آنحضور ﷺ نے حضرت عیسیٰ ؑ کا حلیہ سرخ رنگ اور گھنگریالے بال بتائےہیں جبکہ آنے والے مسیح موعود کا گندمی رنگ اور سیدھے بال بتائے ہیں۔
(بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم)
وفات مسیح کے قائل بزرگان امت
-3
علامہ قمیؒ
-2
علامہ محمد بن عبد الوہاب الجبائیؒ
-1
حضرت امام مالکؒ
-6
علامہ محی الدین ابن عربی ؒ
-5
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ
-4
ابو محمد علی بن حزم اندلسیؒ
-9
علامہ محمود شلتوت
-8
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ
-7
سر سید احمد خان
-12
علامہ احمد مصطفی المراغی
-11
علامہ رشید رضا
-10
لامہ مفتی محمد عبدہ
-15
علامہ عبید اللہ سندھی
-14
عبد الوہاب نجار
-13
ڈاکٹر محمد محمود حجازی
-18
نواب اعظم یار جنگ محمد چراغ علی خان
-17
علامہ عنایت مشرقی
-16
مولانا ابو الکلام آزاد
-19
غلام احمد پرویز
غیرازجماعت کا طریق
٭ جب آنحضور ﷺ کے لیے لفظ توفی آئے تو اس کے معنی وفات۔ (رعد: 41)جب حضرت عیسٰی ؑ کے لیے آئے تو معنی زندہ آسمان پر اٹھانا۔
٭ جب آنحضور ﷺ کے لیے لفظ خلا آئے تو معنی موت یا قتل۔ (آل عمران:145) جب عیسٰیؑ کے لیے آئے تو زندہ آسمان پر اٹھانا ۔
٭ جب آنحضور ﷺ کے لیے لفظ نزول آئے تو مراد پیدا ہونا ۔(طلاق:11) جب عیسٰیؑ کے لیے آئے تومراد زندہ آسمان سے نزول ۔
٭ جب رفع کا لفظ آنحضور ﷺ کے لیے آئے تو مراد درجات کی بلندی(نماز میں دعا ۔وَارْفَعْنِیْ) جب رفع عیسٰی ؑ کے لیے آئے تو مراد اوپر زندہ اٹھانا۔
مضامین:
نزولِ ابن مریم ۔۔ حقیقت یا استعارہ
عربی لغت؛ عربی کتب سیرۃ النبی ؐ اور دیوبندی علماٴ کے نزدیک توفی کا معنی موت
مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام دیگر انبیاء کے ساتھ (معراج)
کیا حضرت عیسیٰؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی ہوسکتے ہیں؟
اہل کتاب کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان
حضرت عیسٰی اور اُن کی وفات ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
کتب:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وصال
الحجۃ البالغہ فی وفات الذی ظھر فی ناصرہ (وفات مسیح ناصریؑ) از حضرت مرزا بشیر احمدؓ، ایم اے
ولکن شُبّھہ لھم (تردید حیات مسیح ؑ ) از ایچ ایم طارق
تحقیق جدید مُتعلق قبر مسیحؑ از حضرت مفتی محمد صادق
وفات مسیح اور احیائے اسلام از مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
قندیل صداقت (مستند کتب کے نایاب تبلیغی حوالہ جات)
کلید دعوت (داعیان الی اللہ کے لئے مفید حوالہ جات) از جمال الدین شمس
ویڈیوز:
وفات مسیح پر مجلس سوال وجواب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ
ایک قرآنی آیت میں متوفی کہہ کر حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کا اعلان ہے، اور دوسری آیت میں رفعہ اللہ الیہ کہہ کر ان کے اُٹھانے کا ذکر ہے۔
جب آنحضرت ﷺ شب معراج کو اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر گئے تھے تو حضرت عیسیٰ ؑ بھی جاسکتے ہیں؟
اگرحضرت عیسیٰ ؑ کشمیر میں دفن ہیں تو وہ وہاں کیسے پہنچے؟ جو قرآن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق رفع کا لفظ آیا ہے کیااس کا مطلب درجہ کی بلندی ہے یا واقعی آسمان پر اٹھا لیے گئے؟
کیا حضرت عیسیٰ ؑ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے؟
مسیح ہندوستان میں (سیریز آف پروگرام)